تبلیغی جماعت

*تبلیغ اور جہاد کے فرض عین اور فرض کفایہ سے متعلق تحقیق*

اور مروجہ تبلیغی جماعت اور اس میں اوقات لگانے کی شرعی حیثیت

سیدی حضرت اقدس حضرت مولانا جسٹس مفتی محمد تقی عثمانی صاحب دامت برکاتہم

السلام علیکم و رحمۃ اللہ۔ مزاج گرامی! دل سے دعائیں ہیں کہ اللہ تعالی حضرت کو ہمیشہ صحت و عافیت کے ساتھ خدمت دین کی توفیق عطا فرمائے آمین۔

حضرت! اس ناکارہ کے دل میں حضرت کی جو محبت وعظمت ہے اس کے اظہار میں طوالت ہوجائیگی۔ مختصراً عرض ہے کہ حضرت کیلئے دل و جان سے، دل کی اتھاہ گہرائیوں سے دعائیں نکلتی رہتی ہیں۔

حضرت کی مصروفیات تو واقعی ہوتی ہیں، تاہم ایک مسئلہ میں حضرت کی رائے مطلوب ہے۔ دوسری کسی جگہ سے حضرت جیسی تسلی متوقع نہیں تھی۔ امید ہے جواب سے بہرمند فرمائیں گے۔

حضرت اکابر کی کتابوں میں اور حضرت کے ایک مستقل وعظ “دین کی حقیقت تسلیم و رضا” میں یہ بات دل میں بیٹھ گئی ہے کہ دین شوق پورے کرنے کا نام نہیں بلکہ اس وقت جو حکم اور وقت کا تقاضا ہو اس کے پورے کرنے کا نام دین ہے، لیکن دوسری طرف اپنے اکابر تبلیغی جماعت والوں کے ہاں دین کی حقیقت کو “قربانی” کے نام سے پیش کیا جاتا ہے، جس کی وجہ سے تردد ہوتا ہے کہ صحیح طرزِ عمل کیا ہونا چاہئے۔

مثلاً ہمارے پاکستان کے سابقہ امیر …………… صاحب مد ظلہم کا جس ہفتہ کا سہ روزہ متعین تھا اسی ہفتہ ان کے سسر کا انتقال ہوگیا۔ اب وہ اس سوچ میں تھے کہ کیا کریں؟ تسلیم و رضا کے پیش نظر تو سہ روزہ کو اس ہفتہ مؤخر بھی کیا جاسکتا تھا تاکہ غمزدہ بیوی کو شوہر سے ساتھ رہنے سے تسلی ہو، لیکن امیر صاحب پاکستان نے سہ روزہ کو مقدم رکھا اور چلے گئے۔ واپسی پر فکر مند تھے کہ بیوی خفا ہوگی لیکن بیوی خلاف توقع بہت محبت سے پیش آئی۔ اور عرض کیا کہ رات اباجی خواب میں ملے تھے۔ انہوں نے کہا کہ ……….. آئے تو اس پر خفا نہ ہونا۔ اس کے سہ روزہ پر جانے سے اللہ تعالی نے میری مغفرت فرمادی ہے۔ اب تسلیم و رضا کے تحت نہ نکلتے تو یہ مغفرت کا بہانہ کیسے بنتا؟

اکثر اکابر تبلیغ والوں سے سنتے ہیں کہ انتظامی چلوں اور سالوں سے ثواب تو ہوتا ہے لیکن کفر نہیں ٹوٹے گا۔ کیونکہ اس کیلئے “قربانی” شرط ہے

کہ گھر میں بیوی بیمار ہے، کھیت میں فصل تیار ہے، جیب میں رقم نہیں، حالات خراب ہیں، تب نکلے گا تو ہدایت عام ہوگی۔ اب تسلیم و رضا کے پیش نظر جب بیوی بیمار ہے تو اس کی دلجوئی ضروری ہے۔ فصل تیار ہے تو کٹائی ضروری ہے۔ اب اس میں تسلیم و رضا کو دیکھا جائے یا قربانی کو۔ غالباً غزوۂ تبوک میں کھجور بالکل پکی ہوئی تھیں لیکن دین کی حقیقت قربانی کے پیش نظر صحابہؓ اللہ کے راستے میں نکل گئے۔

ایک صاحب نے ایک عالم سے پوچھا کہ ایک شخص اللہ کے راستے میں نکلنا چاہتا ہے لیکن اس کا بوڑھا والد نابینا ہے، جوان بیوی ہے اور آس پاس ماحول بھی سازگار نہیں، اور اس کے چھوٹے چھوٹے بچے بھی ہیں۔ اس عالم نے کہا کہ صورت مسئولہ میں یہ شخص اگر نکلتا ہے تو بڑا ظالم ہے۔ اس عالم کو بتایا گیا کہ حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ کے گھر کی یہی حالت تھی جب وہ حضور صلی اللہ علیہ و سلم کے ساتھ نکلے تھے، اب تسلیم و رضا کے تحت تو نہ نکلنا سمجھ میں آتا ہے لیکن بزرگ کہتے ہیں کہ جب اسی حالت میں نکلے گا تو جہاں کفر ٹوٹے گا، وہاں اس کا یقین بھی بنے گا اور گھر والوں کو یقین بھی بنے گا کہ حقیقی محافظ اور رازق تو اللہ ہے۔

بعض لوگوں سے یہ بھی سنتے ہیں صحابہ کرام رضی اللہ عنہ کے وقت چونکہ بلوغ اسلام نہیں ہوا تھا، اس لئے ان پر یہ ذمہ داری بڑھی ہوئی تھی۔ اب تو بلوغ اسلام ہوگیا ہے اب ویسی ذمہ داری نہیں جبکہ تبلیغ والے کہتے ہیں کہ جب بے دینی اور دین سے دوری اسی دور کے مثل عود کر آئی ہو تو کیا حکم وہی عود کر نہیں آئے گا؟

اکابر اہل علم، تبلیغ میں نکلنے کی شرعی حیثیت کو فرض کفایہ کہتے ہیں جبکہ تبلیغ کے بزرگ کہتے ہیں کہ کفایہ کا مطلب تو یہ ہے کہ وہ فرض کی ادائیگی میں کفایت بھی کر جائے۔ اب اربوں انسان دین سے دور ہیں۔ تو کیا سینکڑوں اور ہزاروں کا نکلنا اس فرض کی ادائیگی میں کفایت کر رہا ہے؟

بعض ساتھیوں سے یہ بھی سنتے ہیں کہ ایک سفر میں آپ صلی اللہ علیہ و سلم نے روزے تو افطار کروا دیئے تھے لیکن تبلیغی سفر موقوف نہیں فرمایا۔ اسی طرح حضرت حنظلہؓ کو جب غسل جنابت کی حاجت تھی، وقت کا تقاضا تو غسل تھا، لیکن انہوں نے اسی ناپاکی کی حالت میں اللہ کے راستے کو مقدم رکھا۔

حضرت! امید ہے میں نے اپنے اشکال کی وضاحت کافی حد تک کردی ہے۔ مزید طوالت مناسب نہیں لگتی۔ حضرت اپنی فقیہانہ بصیرت و خدادا فہم کے تحت اس بات کی کسی قدر تفصیل سے وضاحت فرما دیجئے کہ بعض اوقات جب دین کا تقاضا تبلیغ والے پیش کرتے ہیں تو اس وقت کوئی نہ کوئی شرعی تقاضا بھی درپیش ہوجائے تو تسلیم و رضا کے تحت اس تقاضے کو پورا کیا جائے یا صحابہ کرامؓ کی طرح قربانی کر کے ان تقاضوں کو مؤخر کردیا جائے؟

حضرت! مذکورہ اشکال کے ساتھ ایک بات ضمناً عرض کرتا چلوں کہ بعض امور میں اکابر اہل علم اور اکابر اہل تبلیغ کے زاویۂ نگاہ میں کچھ فرق محسوس ہوتا ہے۔ مثلاً عام اہل علم تبلیغ میں نکلنے کو فرض کفایہ اور تبلیغ والے فرضعین بتلاتے ہیں، جیسے آج سے نصف صدی قبل حضرت تھانوی رحمۃ اللہ علیہ نے صحبت اہل اللہ کے فرض عین ہونے کا فتوی دیا تھا۔ کیونکہ بدون صحبت اہل اللہ اس وقت اصلاح ظاہر و باطن قریب قریب ناممکن تھی۔ اب یہ بات بھی مشاہدہ ہے کہ نکلنے سے نہ صرف عوام بلکہ علماء کرام کی دینی حالت میں جو انقلاب آتا ہے اس کا خود مشاہدہ ہے اور ناقابل انکار حقیقت ہے۔ تو اگر مقدمۃ الواجب واجب کے تحت نکلنے کو فرض عین بتلایا جائے تو اس کی کیا شرعی حیثیت ہوگی؟

والسلام

بندہ محمد راشد

جواب:

مکرمی و محترمی: السلام علیکم ورحمۃ اللہ و برکاتہ آپ کا گرامی نامہ ملا۔ آپ احقر ناکارہ کیلئے جس طرح دعائیں کرتے ہیں، اس پر کس زبان سے شکر ادا کروں، اللہ تعالی آپ کو اس کا بہترین صلہ دنیا و آخرت میں عطا فرمائیں، آمین۔

آپ نے تبلیغی جماعت کے بارے میں جو باتیں پوچھی ہیں، ان کے بارے میں چند اصولی باتیں عرض کرتا ہوں، خدا کرے کہ وہ باعث اطمینان ہوں۔

(۱) جب جہاد فرض عین ہوجائے تو اس وقت ایک ایمرجنسی کی حالت ہوتی ہے، اس وقت نہ تجارت جائز ہے، نہ بیوی بچوں کے عام حقوق اس طرح باقی رہتے ہیں جیسے امن کی حالت میں ہوتے ہیں اور نہ جہاد کے سوا کوئی اور ایسا کام جائز ہوتا ہے جو جہاد کے منافی یا اس کی راہ میں رکاوٹ بننے والا ہو (۱)۔ آپ نے صحابہ کرامؓ کے عہد مبارک کی جتنی مثالیں پیش کی ہیں، وہ سب اسی حالت سے متعلق ہیں، غزوۂ تبوک میں جہاد کے فرض عین مونے کا اعلان خود قرآن کریم میں بھی فرمایا گیا تھا (۲)، اور آنحضرت ﷺ نے دو ٹوک الفاظ میں واضح فرما دیا تھا، لہٰذا پکی ہوئی کھیتیاں یا گھر والوں کے مسائل اس فرض عین کی ادائیگی میں مانع نہیں ہوسکیں۔ اس کے باجود آپ ﷺ نے حضرت علیؓ جیسے جانباز صحابی کو حکم دیا کہ وہ مدینہ منوہ میں رہ کر کمزوروں کی دیکھ بھال کریں۔ حضرت علیؓ کی خواہش تو یہ تھی کہ وہ جہاد کی فضیلت حاصل کریں، لیکن آپ ﷺ کے حکم کی وجہ سے تسلیم و رضا کی خاطر مدینہ منورہ میں رہے، اور کمزوروں کی دیکھ بھال کی (۳)۔ حضرت حنظلہؓ کا واقعہ بھی ایسے ہی وقت کا ہے جب دشمن حملہ آور ہوچکا تھا اور جہاد فرضعین تھا (۴)، حضرت صدیق اکبرؓ پر بھی حضور اقدس ﷺ کے ساتھ ہجرت فرض ہوچکی تھی، اور انہوں نے اسی فریضے کو ادا فرمایا ورنہ عام حالات میں آپ ﷺ نے والدین کی خدمت کو جہاد پر مقدم قرار دیا، اور ایسے صحابہؓ کو لوٹا دیا جو والدین کو روتا چھوڑ کر جہاد کیلئے آئے تھے (۵)۔

اگر سہ روزہ یا چلے پر نکلنا اسی درجے میں فرض عین قرار دیا جائے جس درجے میں جہاد نفیر عام کے وقت فرض ہوتا ہے تو اس کا مطلب ہوگا کہ تجارت، صنعت، زراعت کشھ جائز نہ ہو، بلکہ ہر انسان ہر وقت تبلیغی سفر پر ہی رہے، جیسا کہ جہاد کے فرض عین ہونے کے وقت دوسرا کوئی کام جائز نہیں ہوتا۔ سوال یہ ہے کہ اگر سہ روزہ یا چلہ لگانا فرض عین ہے تو اس کی حد کیا ہے؟ کیا قرآن و حدیث کا کائی حکم اسکی تعیین کرتا ہے؟ دوسرے سہ روزہ لگانے کے بعد جب آدمی پورے مہینے تجارت یا زراعت میں مصروف ہوگا تو کیا اس وقت تبلیغی سفر فرض عین نہیں ہوگا؟ اگر نہیں ہوگا تو وہفرض عین کہاں رہا؟ اور ہوگا تو تجارت اور کسب معاش کیسے جائز ہوا؟

(۲) آپ نے لکھا ہے کہ “ایک سفر میں آپ ﷺ نے روزے تو افطار کرادئیے، لیکن تبلیغی سفر موقوف نہیں فرمایا” اولاً تو یہ تبلیغی سفر نہیں تھا، فتح مکہ کے جہاد کا سفر تھا (۶)۔ دوسرے روزے مشقت شدیدہ کی وجہ سے افطار کرائے گئے (۷)، سفر موقوف کرنے کی کوئی وجہ نہیں تھی، زیادہ سے زیادہ شدید گرمی تھی، مگر صرف اتنی بات سے جہاد کو ترک کرنا ضروری نہ تھا۔ کیونکہ اس مشقت کا اثر زیادہ سے زیادہ اپنی ذات پر تھا، کسی کا حق یا مال تلف نہیں ہو رہا تھا۔

(۳) آپ نے فرض کفایہ کا جو مطلب لکھا ہے اگر کفایہ کا یہی مطلب ہے تو پوری تاریخ اسلام میں جہاد کو کبھی “فرض کفایہ” نہ ہونا چاہئے تھا، کیونکہ غیر مسلموں کی تعداد تاریخ کے ہر دور میں مسلمانوں کے تین گنے سے بھی ہمیشہ زائد رہی ہے۔ کروڑوں انسان ہر دور میں دین سے دور رہے ہیں، لہٰذا جب فقہائے امت نے جہاد کو فرض کفایہ قرار دیا تو کیا اس وقت دنیا کی اکثریت مسلمان ہوگئی تھی؟ جب آنحضرت ﷺ دنیا سے تشریف لے گئے تو صحابۂ کرامؓ کی تعداد ایک لاکھ چوبیس ہزار بتائی جاتی ہے۔ جو ظاہر ہے کہ اس وقت کی دنیا کی آبادی کا بہت ،مختصر حصہ تھا۔ لیکن کیا آپ ﷺ نے تبلیغی سفر کو فرض عین قرار دے کر کبھی صحابۂ کرام ؓ کو یہ حکم دیا کہ وہ سب اپنے حقوق واجبہ ترک کر کے دوسرے شہروں اور ملکوں میں جائیں؟ واقعہ یہ ہے کہ “فرض کفایہ” کا مطلب صرف اس قدر ہے کہ اگر مسلمانوں کی معتد بہ جماعت یہ کام کر رہی ہے تو اس کا یہ عمل دوسروں کے فریضے کی ادائیگی کیلئے بھی کافی ہوجاتا ہے۔

(۴) “تسلیم و رضا” اور “قربانی” میں کوئی تعارض نہیں ہے۔ اللہ تعالی کے حکم کی اطاعت قربانی چاہتی ہے، کبھی یہ قربانی جان کی ہوتی ہے۔ کبھی مال کی، کبھی خواہشات کی، جب آپ ﷺ نے حضرت علیؓ کو تبوک جانے سے روکا اور انہوں نے سر تسلیم خم کر دیا تو یہ تسلیم و رضا بھی تھی اور خواہش کی قربانی بھی، جب آپ ﷺ نے حضرت حذیفہ بن یمانؓ کو جنگ بدر میں شرکت سے روکا اور انہوں نے اطاعت کی تو یہ بھی خواہش کی قربانی تھی۔ جب جہاد فرض عین ہوجائے اس وقت جان، مال اور دنیوی خواہشات کی قربانی دی جاتی ہے، اور جب فرض کفایہ ہو اور انسان کیلئے شرعا جائز ہو تب بھی وہ انہی چیزوں کی قربانی پیش کرتا ہے ، لیکن جب تک فرض عین نہ ہو، یہ قربانی اپنی ذات کی حد تک محدود رہتی ہے، دوسرے اصحاب حقوق کی قربانی نہیں کی جاتی۔ ہاں اگر اصحاب حقوق اپنے حقوق خوشی سے چھوڑ دیں تو ان کیلئے باعث اجر ہے، اور اس صورت میں جہاد یا دعوت کے کام میں شرکت باعث اجر عظیم ہے۔ آپ نے جن بزرگ کی مثال دی کہ ان کے سسر کا انتقال ہوگیا تھا۔ پھر بھی وہ سہ روزہ پر چلے گئے، ان کے بارے میں عرض یہ ہے کہ اگر ان کی اہلیہ کو ان کے جانے سے کوئی ناقابل برداشت تکلیف نہیں ہوئی تو شرعا ان کا یہ عمل ناجائز نہیں تھا۔ البتہ افضل ہونے میں رائیں مختلف ہو سکتی ہیں۔ اور خواب کوئی شرعی حجت نہیں ہے جس سے کسی حکم شرعی پر استدلال کیا جائے۔

(۵) یہ بات احقر کی فہم ناقص سے بالاتر ہے کہ تبلیغ میں نکلنے پر ہمیشہ صحابہ کرامؓ کے جہاد کے واقعات سے استدلال کیا جاتا ہے، لیکن عملاً جہاد کے بارے میں طرز عمل یہ ہے کہ گویا جہاد کوئی شرعی فریضہ ہی نہیں ہے، بلکہ اسے عملاً منسوخ سمجھا جاتا ہے اور جہاد کی بعض اوقات مخالفت بھی کی جاتی ہے۔

(۶) مذکورہ بالا گذارشات کا یہ مطلب ہرگز نہیں ہے کہ میں تبلیغی جماعت کا مخالف ہوں، یا یہ کہ تبلیغ کے کام کو اہمیت نہیں دیتا۔ حقیقت یہ ہے کہ تبلیغ کا کام نہایت اہمیت کا حامل ہے، خاص طور پر تبلیغی جماعت نے بفضلہ تعالیٰ مجموعی حیثیت سے بڑا قابل تعریف کام کیا ہے اور اس سے امت کو بہت فائدہ پہنچا ہے، لیکن کسی کام کی اہمیت واضح کرنے کیلئے یہ ضروری نہیں ہے کہ اسے ہر قیمت پر فرض عین قرار دیا جائے۔ دوسرے، جہاں تبلیغی جماعت کے ساتھ تعاون و تناصر ضروری ہے، وہاں بعض غلو آمیز باتوں کی اصلاح بھی ضروری ہے جو بعض نووارد یا حدود کی رعایت نہ رکھنے والے حضرات سے سرزد ہوتی رہتی ہیں، اور اب بعض اوقات احکام شرعیہ میں تصرف کی حد تک پہنچ رہی ہیں۔ اللہ تعالیٰ ہمیں اپنے دین کی صحیح فہم اور اس پر عمل کی توفیق عطا فرمائے۔ آمین۔ والسلام واللہ سبحانہ اعلم

احقر محمد تقی عثمانی عفی عنہ

۲۸-۳-۱۴۱۸ھ

(۱) تفصیل کیلئے حضرت والا دامت برکاتہم کی تصنیف “تکملہ فتح الملہم” کتاب الامارۃ، مسئلۃ فرضیۃ الجہاد ج۳ ص۳۷۴ ملاحظہ فرمائیں۔

(۲) ما کان لاھل المدینۃ و من حولھم من الاعراب ان یتخلفوا عن رسول اللہ ولا یرغبوا بانفسھم عن نفسہ، الآیۃ (سورۃ التوبۃ ۱۲۰)

(۳) و فی صحیح البخاریؒ باب من حبسہ العذر عن الغزو ج۱ ص۳۱۸ حدثنا احمد بن یونس ثنا رھیر ثنا حمید

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *

Time limit is exhausted. Please reload CAPTCHA.