باسمہ تعالی
آج بحمدہ تعالی بند ےکو استاذِ محترم جناب مفتی تقی عثمانی صاحب دامت برکاتھم کے دفتر میں کچھ وقت گزارنے کی توفیق نصیب ہوئی جن میں جو کچھ دیکھنے و سیکھنے کو ملا ، اس سے اس حقیقت کا شدت سے احساس ہوا کہ اللہ والوں کی صحبت کی ایک گھڑی ہزار کتب کے مطالعہ پر بھاری ہوتی ہے۔ قسم ہا قسم کے لوگ اپنے مسائل، مشاورت اور دعا کے لیے آتے رہے اور حضرت کے اندازِ برتاؤ سے بندہ اپنی ناقص فہم کے باوجود بہت کچھ سیکھتا رہا۔
ظہر کی نماز کے بعد پنجاب کے ممتاز و بزرگ عالم ، جامعہ مدنیہ لاہور کے سینیئر مفتی ،دارالافتاء وا لتحقیق لاہور کے رئیس اور متعدد کتابوں کے مصنف جناب مفتی ڈاکٹر عبد الواحد صاحب تشریف لائے۔ علماء و طلبا جانتے ہیں کہ اسلامی بینکاری و جدید مالی معاملات کے مسائل پر حضرت مفتی تقی عثمانی اورحضرت ڈاکٹر عبدا الواحد صاحب کے درمیان شدید اختلاف ہے۔ ڈاکٹر صاحب نے متعدد کتابوں میں ، بالخصوص” جدید معاشی مسائل اور حضرت مولانا تقی عثمانی کے دلائل کا جائزہ “میں مفتی صاحب کے مؤقف پر خوب تنقید کی ہے اور مفتی صاحب نے اپنی کتاب “غیر سودی بینکاری” میں ان کا دلائل کے ساتھ جواب بھی دیا ہے۔ اس قدر اختلافات کے باوجود یہدونوں حضرات جس محبت و باہمی احترام کے ساتھ گفتگو فرمارہے تھے اس میں ان اہلِ علم حضرات کے لیے خصوصا اور عوام کے لیے عموما بہت ہی اہم سبق ہے جو چھوٹے چھوٹے اختلافات پر اعتدال اور ادب کا دامن چھوڑ دیتے ہیں۔
حضرت ڈاکٹر صاحب عرصہ سے رعشہ کے مریض ہیں ، ستر سال سے زائد عمر کی وجہ سے چلنا مشکل ہے ، پھر بھی علمِ دین کی سچی طلب میں خود چل کر تشریف لائے، حالانکہ پانچ دس منٹ کےیہ سوالات وہ فون پر بھی کرسکتے تھے۔ ڈاکٹر صاحب نے ملاقات کے آخر میں اپنے کانپتے ہاتھوں سے مفتی صاحب کو ہدیہ پیش کیا تو مفتی صاحب بڑی محبت سے فرمانے لگے کہ آپ کا تشریف لانا کوئی کم اعزاز تھا جو آپنے مزید بھی تکلف کیا۔ پھر اپنی تمام تر مصروفیات اور دور دور سے آئے ہوئے مہمانوں کو چھوڑ کر مفتی صاحب خود ڈاکٹر صاحب کو ہاتھ تھام کر باہر گاڑی تک رخصت کرنے تشریف لائے اور ڈاکٹر صاحب کے منع کرنے کے باوجود خود گاڑی میں سہارا دے کر بٹھایا۔ باہمی احترام، سچی طلب، قدر دانی و حسنِ اختلاف کی اس زندہ جاوید مثال میں سیکھنے والوں کے لیے بہت سے سبق چھپے ہیں۔
از بندہ محمد وصی بٹ
بتاریخ ۲۸ جولائی ۲۰۱۸ ء