Category Archives: نصیحت

نصیحت

زیارت قبر مبارکہ صلی اللہ علیہ والہ وسلم

: نبی کریم کی قبر کی زیارت کے سلسلے میں جتنی احادیث ہیں شیخ ناصر الدین البانی نے ان سب پر ضعیف کا حکم لگایا ہے اسکا کیا جواب ہے؟

شیخ الاسلام مفتی محمد تقی عثمانی صاحب مدظلہ نے فرمایا

جواب شیخ ناصرالدین البانی صاحب (اللہ ہم سب کو ہدایت عطافرماۓ) تصحیح وتضعیف کے بارے میں حجت نہیں ہیں

چنانچہ انہوں نے بخاری اور مسلم کی بعض احادیث کو ضعیف کہہ دیا

اور عجیب بات یہ ہے کہ ایک حدیث کے بارے میں بڑی شدو مد سے کہہ دیا کہ یہ ضعیف ہے

ناقابل اعتبار ہے مجروح ہے ساقط الاعتبار ہے

اور پانچ سال بعد وہیں حدیث آئی اس پر گفتگو کرنے کےلیے کہا گیا تو کہا کہ یہ بڑی پکی اور صحیح حدیث ہے یعنی جس حدیث پر بڑی شدومد سے نکیر کی تھی

آگے جاکر بھول گئے کہ میں نے کیا کہا تھا

تو ایسے تناقضات ایک دو نہیں بیسیوں ہیں

اور کہا جارہا ہے کہ یہ حدیث کی تصحیح وتضعیف کے بارے میں مجدد ھذہ الماۃ ہیں

بہرحال عالم ہیں عالم کے لئے ثقل لفظ استعمال نہیں کرنا چاہیے

لیکن انکے انداز گفتگو میں سلف صالحیں کی جو بے ادبی ہے

اور انکے طریقہ تحقیق میں جو یک رخا پن ہے جس کے نتیجے میں صحیح حدیثوں کو بھی ضعیف قرار دے دیتے ہیں اور جہاں اپنے مطلب کی بات ہوتی ہے وہاں ضعیف کو بھی صحیح قرار دے دیتے ہیں اس لئے ان کا کوئی اعتبار نہیں حدیث کی تصحیح وتضعیف کوئی آسان کام نہیں ہے

<نہ ہر کہ سر بترا شد قلندری داند>

علماء کرام نے فرمایا کہ چوتھی صدی ہجری کے بعد کسی آدمی کا یہ مقام نہیں ہے کہ وہ سلف کی تصحیح و تضعیف سے قطع نظر کے خود تصحیح و تضعیف کا حکم لگاۓ کہ میرے نزدیک یہ صحیح ہے اور یہ ضعیف ہے

یہاں تک حافظ ابن حجر جیسا شخص بھی یہ نہیں کہتا کہ یہ حدیث صحیح ہے یاضعیف ہے

بلکہ کہتا ہے کہ رجالہ رجال الصحیح رجالہ ثفات

یہ الفاظ استعمال کرتے ہیں اپنی طرف سے تصحیح کا حکم نہیں لگاتے کہتے ہیں کہ میرا یہ مقام نہیں ہے کہ تصحیح کا حکم لگاؤں

آچ جو لوگ کہتے ہیں کہ ھذا عندی ضعیف

اسکا جواب وہی جو پہلے ایک شعر بتایا تھا کہ

یقولوں ھذا عندنا غیر جائز

ومن انتم حتی یکون لکم عند

باقی حدیث

*من زار قبری وجبت لہ شفاعتی*

کے بارے میں صحیح بات یہ ہے کہ محدثین نے اسکو حسن قرار دیاہے

باقی حدیثوں کی اسناد بے شک ضعیف ہیں لیکن ایک تو تعدد طرق و شواہد کی بناء پر دوسرا تعامل امت کی بناء پر مؤید ہوکر قابل استدلال ہیں

انعام الباری

جلد۔۔4

صفحہ ۔۔346۔347۔

ص 345